امید کی بوندیں:شمالی پاکستان میں پانی اور روزگار کا تحفظ

13-06-2025

بلند و بالا قراقرم پہاڑی سلسلے کے درمیان، تقریباً 9,000 فٹ کی بلندی پر، تھولدی نامی ایک دور دراز وادی واقع ہے۔ ایک ایسی جگہ جو جتنی خوبصورت ہے، اتنی ہی دشواربھی ہے۔ یہ وادی بلتستان کے پسماندہ ضلع خپلو کا حصہ ہے، جہاں کے لوگ روزانہ مشکل حالات کا سامنا کرتے ہیں۔ یہاں پانی صرف ایک قدرتی وسیلہ نہیں، بلکہ زندگی کی بنیاد ہے۔
ایک پریشان حال کمیونٹی:
تھولدی کے لوگ کئی نسلوں سے گلیشیئر کے پگھلے ہوئے پانی پر کاشتکاری کے لیے انحصار کرتے آئے ہیں۔ لیکن اب ماحولیاتی تبدیلی اور پرانے، ناکارہ پانی کے راستے اس پانی کو ناقابلِ اعتبار بنا رہے ہیں۔ ماؤنٹین اینڈ گلیشیئر پروٹیکشن آرگنائزیشن (MGPO) کے مطابق، پہلے تقریباً 50 فیصد پانی راستے میں ضائع ہو جاتا تھا، جس سے کھیت خشک رہتے تھے اور پیداوار بہت کم ہوتی تھی۔ پانی کی کمی کی وجہ سے لوگ اپنی زمین کو بھی مکمل طور پر استعمال نہیں کر پاتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فصلوں کی پیداوار کم ہونے لگی، خوراک کی کمی پیدا ہوئی اور مختلف فصلیں اگانا بھی ممکن نہ رہا۔  بہت سے مردوں کو روزگار کی تلاش میں شہروں کا رخ کرنا پڑا، جس سے گھر اور خاندان متاثر ہوئے۔
تبدیلی کی طرف قدم:
اس سنگین مسئلے کو دیکھتے ہوئے، کوکا کولا فاؤنڈیشن نے MGPO اور اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (UNDP) پاکستان کے ساتھ مل کر  ’پانی کی حفاظت اور پہاڑی علاقوں کے لیے زندگیوں کی تعمیر‘کے ایک سسٹینبل منصوبے کا آغاز کیا۔ اس منصوبے کا مقصد زرعی اور روزمرہ استعمال کے لیے پانی کی فراہمی کو پائیدار بنانا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پانی کے انتظام، خوراک کی حفاظت، ماحول کی بحالی اور کمیونٹی کی شمولیت کو یقینی بنانا بھی اس منصوبے کا حصہ ہے۔  کوکا کولا فاؤنڈیشن کی جانب سے 120,000 امریکی ڈالر کی امداد (جو منصوبے کی 80 فیصد لاگت ہے) سے ایک مضبوط آبپاشی نظام بنایا گیا، جو تھولدی کے ساتھ ساتھ داغونی اور سکساجیسے علاقوں کو بھی پانی فراہم کرتا ہے۔  اب 9,900 فٹ لمبا پانی کا نظام، 7,700 فٹ زیرِ زمین پائپ اور 2,200 فٹ پکے کھالوں کے ذریعے، نچلے گاؤں تک پانی پہنچاتا ہے، جس سے پانی کا ضیاع کم ہو گیا ہے اور زرعی پیداوار میں واضح بہتری آئی ہے۔  یہ پانی گلیشیئرکی پگھلتی برف اور اس سے بننے والےایک مستقل چشمے سے حاصل ہوتا ہے اور اسے 7,000 گیلن کے ایک محفوظ ٹینک میں جمع کیا جاتا ہے۔ پھر کششِ ثقل کی مدد سے اسے کھیتوں تک پہنچایا جاتا ہے۔ اب 238 ہیکٹر زمین سیراب ہو رہی ہے، جن میں سے 91 ہیکٹر پہلے بنجر تھی۔ اب ان زمینوں پر گندم، مکئی، جو، پیاز، ٹماٹر اور آلو اگائے جا رہے ہیں۔
پانی کی بہتر دیکھ بھال کے لیے جامع منصوبہ:
اگرچہ اس منصوبے کا مرکزی مقصد پانی کا انتظام تھا، لیکن اس کے اثرات اس سے کہیں زیادہ ہیں:
٭  2,100  لوگوں کو زرعی پانی کی سہولت ملی ہے، جس سے ان کے روزگار اور آمدنی میں بہتری آئی ہے؛
٭  1,000 لوگوں کو معاشی فائدہ ہوا ہے، کیونکہ اب وہ اپنی زمین پر بہتر فصلیں اگا سکتے ہیں؛
٭  بنجر زمینوں کو قابلِ کاشت بنایا گیا ہے، جو ماحول کے لیے بھی فائدہ مند ہے؛ 
٭ کمیونٹی کی قیادت میں شجرکاری کا آغاز کیا گیا ہے، جس کے تحت 20,000 درخت لگانے کا منصوبہ ہے؛

یہ پانی کی پائپ لائن اب سردیوں میں بھی گھریلو استمعال کے قابل پانی مہیا کرتی ہے، جب دیگر ذرائع منجمد ہو جاتے ہیں۔  اس نظام کو پائیدار بنانے کے لیے مقامی افراد پر مشتمل نگرانی اور دیکھ بھال کی کمیٹیاں بنائی گئی ہیں۔  پانی کی رسائی کے ابتدائی پوائنٹ پر ایک فلو میٹر نصب ہے، جو پانی کی دستیابی کو ناپتا ہے اور اس کے مطابق منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔

ایم جی پی او کی سی ای او محترمہ عائشہ خان کے مطابق:  ”میں یہ کہوں گی کہ اس نئے آبپاشی نظام سے پہلے جو زمین بنجر تھی، اب وہاں فصلیں اگ رہی ہیں، درخت لگائے جا رہے ہیں۔ یہاں کے لوگ کہتے ہیں کہ وہ ہر سال مزید درخت لگائیں گے تاکہ جنگلات بڑھیں اور ماحولیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کیا جا سکے۔ پھلوں کے درختوں سے انہیں غذائیت بھی ملے گی اور آمدنی بھی۔“

پانی کی حفاظت اور پہاڑی کمیونٹیز کے لیے لچکدار زندگیوں کی تعمیر‘ کا یہ منصوبہ صرف ایک منصوبہ نہیں، بلکہ یہ ایک امید کی مثال ہے — ایک ایسی مثال جس کو پھیلا کر  کمیونٹییز کو بااختیار 

Water Security for Mountain Communities in Gilgit-Baltistan